Tuesday, 2 February 2016

تیرے غم نے نہ اگر دل کو سنبھالا ہوتا

تیرے غم نے نہ اگر دل کو سنبھالا ہوتا
زندگی نے تو مجھے مار ہی ڈالا ہوتا
مل نہ جاتا تِری دیوار کا سایہ جو ہمیں
وہی ہم ہوتے، وہی پاؤں کا چھالا ہوتا
اس کا ملنا کوئی دشوار نہیں تھا، لیکن
خود کو گم کر کے کوئی ڈھونڈنے والا ہوتا
مانگ لیتا تِرے عارض سے جو کرنیں سورج
تو ہر اک صبح کا انداز نرالا ہوتا
گھر کا ہر طاق چراغوں سے جو روشن ہے تو کیا
تم جو آتے تو دل و جاں میں اجالا ہوتا
ہم زمانے کے مقابل نہیں ہونے پاتے
ناوکِ عشق جو سینے سے نکالا ہوتا
ہم کو اک آہ کی توفیق تو ہوتی اخترؔ
دل نے ہنس ہنس کے جو یہ درد نہ پالا ہوتا

اختر سعید خان

No comments:

Post a Comment