Sunday 30 March 2014

کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں

کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
بہت کم ظرف تھا جو محفلوں کو کر گیا ویراں
نہ پوچھو حالِ یاراں شام کو جب سائے ڈھلتے ہیں
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے، نہ اپنے دن بدلتے ہیں
کہاں تک دوستوں کی بے دلی کا ہم کریں ماتم
چلو اس بار بھی ہم ہی سرِ مقتل نکلتے ہیں
ہمیشہ اوج پر دیکھا مقدر ان ادیبوں کا
جو ابن الوقت ہوتے ہیں ہوا کے ساتھ چلتے ہیں
بہر صورت مسائل کو تو حل کرنا ہی پڑتا ہے
مسائل ایسے سائل ہیں کہاں ٹالے سے ٹلتے ہیں
ہم اہل درد نے یہ راز آخر پا لیا جالبؔ
کہ دیپ اونچے مکانوں میں ہمارے خوں سے جلتے ہیں

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment