Tuesday 1 April 2014

ایک مشکل سی بہر طور بنی ہوتی ہے

ایک مشکل سی بہر طور بنی ہوتی ہے
تجھ سے باز آئیں تو پھر خود سے ٹھنی ہوتی ہے
کچھ تو لے بیٹھی ہے اپنی شکستہ پائی
اور کچھ راہ میں چھاؤں بھی گھنی ہوتی ہے
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
آبلہ پائی بھی ہوتی ہے مقدر اپنا
سر پہ افلاک کی چادر بھی تنی ہوتی ہے
دودھ کی نہر نکالی ہے غموں سے ہم نے
ہم بتا سکتے ہیں کیا کوہ کنی ہوتی ہے
دشت غربت ہی پہ موقوف نہیں ہے تابشؔ
اب تو گھر میں بھی غریب الوطنی ہوتی ہے

عباس تابش

No comments:

Post a Comment