ایک مشکل سی بہر طور بنی ہوتی ہے
تجھ سے باز آئیں تو پھر خود سے ٹھنی ہوتی ہے
کچھ تو لے بیٹھی ہے اپنی شکستہ پائی
اور کچھ راہ میں چھاؤں بھی گھنی ہوتی ہے
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
آبلہ پائی بھی ہوتی ہے مقدر اپنا
سر پہ افلاک کی چادر بھی تنی ہوتی ہے
دودھ کی نہر نکالی ہے غموں سے ہم نے
ہم بتا سکتے ہیں کیا کوہ کنی ہوتی ہے
دشت غربت ہی پہ موقوف نہیں ہے تابشؔ
اب تو گھر میں بھی غریب الوطنی ہوتی ہے
عباس تابش
No comments:
Post a Comment