Friday 11 April 2014

پس گرد جادۂ درد نور کا قافلہ بھی تو دیکھتے

پسِ گرد جادۂ درد نور کا قافلہ بھی تو دیکھتے
جو دلوں سے ہو کے گزر رہا ہے وہ راستہ بھی تو دیکھتے
یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے وہ جو آگ تھی وہ کہاں کی تھی
کبھی راویانِ خبر زدہ، پسِ واقعہ بھی تو دیکھتے
یہ گلو گرفتہ و بستۂ رسنِ جفا، مِرے ہم قلم
کبھی جابروں کے دلوں میں خوفِ مکالمہ بھی تو دیکھتے
یہ جو پتھروں میں چھپی ہوئی ہے شبیہہ یہ بھی کمال ہے
وہ جو آئینے میں ہُمک رہا ہے وہ مُعجزہ بھی تو دیکھتے
جو ہوا کے رُخ پہ کُھلے ہوئے ہیں وہ بادباں تو نظر میں ہیں
وہ جو موجِ خوں سے الجھ رہا ہے وہ حوصلہ بھی تو دیکھتے
یہ جو آبِ زر سے رقم ہوئی ہے یہ داستاں بھی ہے مستند
 وہ جو خونِ دل سے لکھا گیا ہے وہ حاشیہ بھی تو دیکھتے
میں تو خاک تھا کسی چشمِ ناز میں آ گیا ہوں تو مِہر ہوں
 مِرے مہرباں کبھی اک نظر مِرا سلسلہ بھی تو دیکھتے

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment