Sunday 20 April 2014

اک شب میں عمر بھر کا ارادہ بدل گیا

اک شب میں عمر بھر کا ارادہ بدل گیا 
وقتِ سفر، سفر کا ارادہ بدل گیا
سہواً پڑی تھی اس رُخِ روشن پر اک نظر   
پھر یوں ہوا نظر کا ارادہ بدل گیا 
موجِ ہوا کے ساتھ میں جنگل تک آ گیا 
بارش ہوئی تو گھر کا ارادہ بدل گیا
جب یاد آ گئے ہیں قفس کے وہ روز و شب     
تزئینِ بال و پر کا ارادہ بدل گیا
اب تو یہیں کہیں پہ گزاریں گے چار دن 
یعنی ادھر، اُدھر کا ارادہ بدل گیا 

اشرف یوسفی

No comments:

Post a Comment