Monday 14 April 2014

حوصلوں کے نہ بال و پر دیکھو

حوصلوں کے نہ بال و پر دیکھو
آ کے اب تم میرا جگر دیکھو
رات بھر جاگتے رہے ہو تم
کیسے ہوتی ہے اب سحر دیکھو
تم کو فرصت کبھی جو مل جائے
اپنے بارے میں سوچ کر دیکھو
تم دلوں میں نہ ڈھونڈنا اس کو
رکھا قرآں ہے طاق پر دیکھو
تیر برسا رہے ہیں لفظوں کے
ان کی تنقید کا ہنر دیکھو
کتنے بدنام ہو گئے ہیں ہم
محنتوں کا ملا ثمر دیکھو
وہ بپھرنے لگے ہیں غصے میں
اپنی فریاد کا اثر دیکھو
اپنی غیرت کو ٹھیس پہنچے گی
غیر پر ڈال کر نظر دیکھو
میرے بچے بھی تو فرشتے ہیں
ایک جنت ہے میرا گھر دیکھو
تم جنوں پر سوار ہو جانا
کیسے کٹتا ہے پھر سفر دیکھو
اے ضیاؔ اس طلائی پیالے میں
زہر دیتا ہے چارہ گر دیکھو

ضیا کرناٹکی

No comments:

Post a Comment