Wednesday 16 April 2014

فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے

فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے
سبک ہوئے ہیں تو عیش ملال سے بھی گئے
جو بتکدے میں تھے وہ صاحبانِ کشف و کمال
حرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے
اسی نگاہ کی نرمی سے ڈگمگائے قدم
اسی نگاہ کے تیور سنبھال سے بھی گئے
غمِ حیات و غمِ دوست کی کشاکش میں
ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے
گل و ثمر کا تو رونا الگ رہا، لیکن
یہ غم کہ فرقِ حرام و حلال سے بھی گئے
وہ لوگ جن سے تِری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تِری بزمِ خیال سے بھی گئے
ہم ایسے کون تھے لیکن قفس کی یہ دنیا
کہ پر شکستوں میں اپنی مثال سے بھی گئے
چراغِ بزم ابھی جانِ انجمن نہ بُجھا
کہ یہ بُجھا تو تِرے خط و خال سے بھی گئے

عزیز حامد مدنی ​

No comments:

Post a Comment