ہر بات شریعت ہے کہ نہیں ہر سانس عبادت ہے کہ نہیں
کیا جانے تِرے دیوانے کو عرفانِ محبت ہے کہ نہیں
دوزخ کی کہانی بھی سچی، جنت کے فسانے بھی برحق
لیکن کوئی واعظ سے پوچھے، دنیا بھی حقیقت ہے کہ نہیں
ہنگامِ سحر ہے، ہر غنچہ شبنم سے نکھرتا جاتا ہے
ساقی بھی ہیں ابر و جام بھی ہیں، اے ناصح مشفق! تُو ہی بتا
حالات کی رو میں بہہ جانا، انسان کی فطرت ہے کہ نہیں
جب عشق سرور و مستی ہے، جب حُسن ہے رنگ و رعنائی
یہ مسلکِ شمع و پروانہ، توہینِ محبت ہے کہ نہیں
مستی سے دمکتے چہروں کو گرمی سے پسینہ آ جائے
اربابِ جنوں کی نظروں میں، اتنی بھی حرارت ہے کہ نہیں
وہ رنگ و ادا پہ مرتا ہے، خوشبو سے محبت کرتا ہے
بھونرے کی بلا سے پھولوں میں احساسِ محبت ہے کہ نہیں
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment