Saturday 26 April 2014

شیشے دلوں کے گرد تعصب سے اٹ گئے

شیشے دلوں کے گردِ تعصّب سے اٹ گئے
روشن دماغ لوگ بھی فِرقوں میں بٹ گئے
اظہار کا دباؤ بڑا ہی شدید تھا
الفاظ روکتے ہی مِرے ہونٹ پھٹ گئے
بارش کو دشمنی تھی فقط میری ذات سے
جونہی مِرا مکان گِرا، ابر چَھٹ گئے
دھرتی پہ اُگ رہی ہیں فلک بوس چمنیاں
جن سے فضائیں عطر تھیں وہ پیڑ کٹ گئے
سپراؔ پڑوس میں نئی تعمیر کیا ہوئی
میرے بدن کے رابطے سورج سے کٹ گئے

تنویر سپرا

No comments:

Post a Comment