Friday 11 April 2014

پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی

پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی
شہروں میں ایک شہر میرے رتجگوں کا شہر
کوچے تو کیا دلوں ہی میں وسعت نہیں رہی
لوگوں میں میرے لوگ وہ دلداریوں کے لوگ
بچھڑے تو دور دور تک رقابت نہیں رہی
شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام
اب نیم وا دریچوں کی حسرت نہیں رہی
راتوں میں ایک رات میرے گھر کی چاند رات
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی
راہوں میں ایک راہ گھر لوٹنے کی راہ
ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی
یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد
وہ یاد کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی
ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام
اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی
خوابوں میں ایک خواب تیری ہمرہی کا خواب
اب تجھ کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں رہی
رنگوں میں ایک رنگ تیری سادگی کا رنگ
ایسی ہوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی
باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات
اور اب یہ اتفاق کہ چاہت نہیں رہی
فصلوں میں ایک فصل وہ جاندادگی کی فصل
بادل کو یاں زمیں سے رغبت نہیں رہی
زخموں میں ایک زخم متاع ہنر کا زخم
اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی
سناٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیرؔ
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی

نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment