Thursday, 24 April 2014

کس یاس سے مرے ہیں مریض انتظار کے

کِس یاس سے مرے ہیں مریض اِنتظار کے
قاتل کو یاد کر کے، قضا کو پُکار کے
مقتل میں حال پوچھو نہ مجھ بے قرار کے
تم اپنے گھر کو جاؤ چُھری پھیر پھار کے
رُکتی نہیں ہے گردشِ ایّام کی ہنسی
لے آنا طاق سے مِرا ساغر اُتار کے
جی ہاں شراب خور ہیں ہم تو جنابِ شیخ
بندے بس ایک آپ ہیں، پروردگار کے
لِکھا ہوا جہاں تھا مقدر میں ڈوبنا
کشتی کو موج لائی وہیں گھیر گھار کے
صیاد! تیرے حُکمِ رہائی کا شکریہ
ہم تو قفس میں کاٹ چُکے دن بہار کے
ہم اُن سےبات کر نہ سکے بزمِ غیر میں
شوقِ کلام رہ گیا دل مار مار کے
بجلی کبھی گِری، کبھی صیاد آ گیا
ہم نے تو چار دن بھی نہ دیکھے بہار کے
کتنی طویل ہوتی ہے اِنساں کی زندگی
سمجھا ہوں آج میں شبِ فرقت گزار کے
میت قمرؔ کی دیکھ کے بولے وہ صبحِ ہجر
تارے گِنے گئے نہ شبِ انتظار کے

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment