سحر جیتے گی یا شامِ غریباں، دیکھتے رہنا
یہ سر جھکتے ہیں یا دیوارِ زنداں، دیکھتے رہنا
ہر اک اہلِ لہو نے بازئ ایماں لگا دی ہے
جو اب کی بار ہو گا وہ چراغاں دیکھتے رہنا
ادھر سے مدعی گزریں گے ایقانِ شریعت کے
اُسے تم لوگ کیا سمجھو گے جیسا ہم سمجھتے ہیں
مگر پھر بھی کریں گے اس سے پیماں دیکھتے رہنا
سمجھ میں آ گیا تیری نگاہوں کے الجھنے پر
بھری محفل میں سب کا ہم کو حیراں دیکھتے رہنا
ہزاروں مہرباں اس راستے پر ساتھ آئیں گے
میاں یہ دل ہے یہ جیب و گریباں دیکھتے رہنا
دبا رکھو یہ لہریں ایک دن آہستہ آہستہ
یہی بن جائیں گی، تمہیدِ طوفاں دیکھتے رہنا
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment