خود ہی اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں ہم
مضطرب ٹھہرے سو شب میں دیر سے آتی ہے نیند
صبح سے پہلے مگر بیدار ہو جاتے ہیں ہم
نام کی خواہش ہمیں کرتی ہے سرگرمِ عمل
اس عمل سے بھی مگر بیزار ہو جاتے ہیں ہم
بھول کر وہ بخش دے گر روشنی کی اک کرن
دائمی شہرت کے دعوے دار ہو جاتے ہیں ہم
زندگی سے دور کر دیتا ہے اتنا خوفِ مرگ
آپ اپنی زندگی پر بار ہو جاتے ہیں ہم
اک زرا سی بات اور پھر اشک تھمتے ہی نہیں
لہر سی اک دل میں اور سرشار ہو جاتے ہیں ہم
شبنم شکیل
سوچتے ہیں اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں ہم
مضطرب ٹھہرے سو شب میں دیر سے آتی ہے نیند
صبح سے پہلے مگر بیدار ہو جاتے ہیں ہم
نام کی خواہش ہمیں کرتی ہے سرگرمِ عمل
اس عمل سے بھی مگر بیزار ہو جاتے ہیں ہم
بھول کر وہ بخش دے گر روشنی کی اک کرن
دائمی شہرت کے دعوے دار ہو جاتے ہیں ہم
زندگی سے دور کر دیتا ہے اتنا خوفِ مرگ
آپ اپنی زندگی پر بار ہو جاتے ہیں ہم
اک زرا سی بات اور پھر اشک تھمتے ہی نہیں
لہر سی اک دل میں اور سرشار ہو جاتے ہیں ہم
شبنم شکیل
No comments:
Post a Comment