Monday 14 April 2014

خود ہی اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم

خود ہی اپنے درپئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں ہم
مضطرب ٹھہرے سو شب میں دیر سے آتی ہے نیند
صبح سے پہلے مگر بیدار ہو جاتے ہیں ہم
نام کی خواہش ہمیں کرتی ہے سرگرمِ عمل
اس عمل سے بھی مگر بیزار ہو جاتے ہیں ہم
بھول کر وہ بخش دے گر روشنی کی اک کرن
دائمی شہرت کے دعوے دار ہو جاتے ہیں ہم
زندگی سے دور کر دیتا ہے اتنا خوفِ مرگ
آپ اپنی زندگی پر بار ہو جاتے ہیں ہم
اک زرا سی بات اور پھر اشک تھمتے ہی نہیں
لہر سی اک دل میں اور سرشار ہو جاتے ہیں ہم

شبنم شکیل

No comments:

Post a Comment