Saturday 26 April 2014

گزشت و رفت کے مابین کیا دیا گیا ہے

گزشت و رفت کے مابین کیا دیا گیا ہے 
نئے غبار کا حصہ بنا دیا گیا ہے
ہمارے خواب ہمارے نہیں رہے مِرے دوست
سو دستِ چشم میں کاسہ تھما دیا گیا ہے
عجیب جنگ ہے چھڑنے سے قبل ہی مجھ کو
مِری شکست کا منظر دکھا دیا گیا ہے
دلِ حزیں تِری حیران و خشک مٹی پر
کسی کی یاد کا خیمہ لگا دیا گیا ہے
وجود مجھ کو عدم کی مثال لگنے لگا
یہ کیسی نیند سے مجھ کو جگا دیا گیا ہے
سحر گزیدہ چراغوں سے پوچھنا ہے مجھے
یہ کس چراغ سے سورج جلا دیا گیا ہے
دِلا! قبول تِرے فیصلے، قبول مجھے
مگر وہ غم کہ جو تجھ سے سوا دیا گیا ہے
یہ دشتِ جاں ہے کہ سیراب ہی نہیں ہوتا
اگرچہ آنکھ سے دریا بہا دیا گیا ہے

حماد نیازی

No comments:

Post a Comment