کیا ہوئے، باد بیاباں کے پکارے ہوئے لوگ
چاک در چاک، گریباں کو سنوارے ہوئے لوگ
خوں ہوا دل، کہ پشیمانِ صداقت ہے وفا
خوش ہوا جی، کہ چلو آج تمہارے ہوئے لوگ
یہ بھی کیا رنگ ہے اے نرگسِ خواب آلودہ
شہر میں سب ترے جادو کے ہیں مارے ہوئے لوگ
خط معزولئ اربابِ ستم کھینچ گئے
یہ رَسن بستہ صلیبوں سے اتارے ہوئے لوگ
وقت ہی وہ خطِ فاصل ہے کہ اے ہم نفسو
دُور ہے موجِ بلا، اور کنارے ہوئے لوگ
اے حریفانِ غمِ گردشِ ایام، آؤ
ایک ہی غول کے ہم لوگ ہیں، ہارے ہوئے لوگ
ان کو اے نرم ہوا، خوابِ جنوں سے نہ جگا
رات مئے خانے کی آئے ہیں گزارے ہوئے لوگ
عزیز حامد مدنی
چاک در چاک، گریباں کو سنوارے ہوئے لوگ
خوں ہوا دل، کہ پشیمانِ صداقت ہے وفا
خوش ہوا جی، کہ چلو آج تمہارے ہوئے لوگ
یہ بھی کیا رنگ ہے اے نرگسِ خواب آلودہ
شہر میں سب ترے جادو کے ہیں مارے ہوئے لوگ
خط معزولئ اربابِ ستم کھینچ گئے
یہ رَسن بستہ صلیبوں سے اتارے ہوئے لوگ
وقت ہی وہ خطِ فاصل ہے کہ اے ہم نفسو
دُور ہے موجِ بلا، اور کنارے ہوئے لوگ
اے حریفانِ غمِ گردشِ ایام، آؤ
ایک ہی غول کے ہم لوگ ہیں، ہارے ہوئے لوگ
ان کو اے نرم ہوا، خوابِ جنوں سے نہ جگا
رات مئے خانے کی آئے ہیں گزارے ہوئے لوگ
عزیز حامد مدنی
No comments:
Post a Comment