Wednesday 16 April 2014

جب تک نہ لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے

جب تک نہ لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے
اے دل! قفسِ جاں میں ذرا اور پھڑک لے
ذرے ہیں ہوس کے بھی زرِنابِ وفا میں
ہاں جنسِ وفا کو بھی ذرا چھان پھٹک لے
پھر دیکھنا اُس کے لبِ لعلیں کی ادائیں
یہ آتشِ خاموش ذرا اور دہک لے
گونگا ہے تو لب بستوں سے آدابِ سخن سیکھ
اندھا ہے تو ہم ظلم رسیدوں سے چمک لے
ناصرؔ سے کہے کون کہ اللہ کے بندے
باقی ہے ابھی رات ذرا آنکھ جھپک لے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment