Monday 28 April 2014

تم کہ سنتے رہے اوروں کی زبانی لوگو

تم کہ سنتے رہے اوروں کی زبانی لوگو
ہم سناتے ہیں تمہیں اپنی کہانی لوگو
کون تھا دشمنِ جاں وہ کوئی اپنا تھا کہ غیر
ہاں وہی دشمنِ جاں، دلبرِ جانی لوگو
زلف زنجیر تھی ظالم کی تو شمشیر بدن
روپ سا روپ، جوانی سی جوانی لوگو
سامنے اس کے دِکھے نرگسِ شہلا بیمار
روبرو اس کے بھرے سرو بھی پانی لوگو
اس کی گفتار میں خندہ تھا شگفتِ گل کا
اس کی رفتار میں چشمے کی روانی لوگو
اس کے ملبوس سے شرمندہ قبائے لالہ
اس کی خوشبو سے جلے رات کی رانی لوگو
ہم جو پاگل تھے تو بے وجہ نہیں تھے پاگل
ایک دنیا تھی مگر اس کی دِوانی لوگو
عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے یوں بھی
کب رہا کوئی رازِ نہانی لوگو
ایک تو عشق کیا عشق بھی پھر میرؔ سا عشق
اس پہ غالبؔ کی سی آشفتہ بیانی لوگو
حیلہ جُو ویسے بھی ہوتے ہیں زمانے والے
اس پہ آئی نہ ہمیں بات چھپانی لوگو
داستاں کوئی بھی ہو ذکر کسی شخص کا ہو
ہم نے اس نام سے تمہید اٹھانی لوگو
ہاں وہی نام کہ جس نام سے وابستہ ہے
ہر محبت وہ نئی ہو کہ پرانی لوگو
ہم ہی سادہ تھے کیا اس پہ بھروسا کیا کیا
ہم ہی ناداں تھے کہ لوگوں کی نہ مانی لوگو
ہم تو اس کے لیے گھر بار بھی تَج بیٹھے تھے
اس سِتمگر نے مگر قدر نہ جانی لوگو
کس طرح بھول گیا قول و قسم وہ اپنے
کتنی بے صرفہ گئی یاد دہانی لوگو
جس طرح تتلیاں باغوں سے سفر کر جائیں
جیسے الفاظ میں مر جائیں معانی لوگو
اب غزل کوئی اترتی ہے تو نوحے کی طرح
شاعری ہو گئی اب مرثیہ خوانی لوگو
شمع رویوں کی محبت میں یہی ہوتا ہے
رہ گیا داغ فقط دل کی نشانی لوگو

احمد فراز

No comments:

Post a Comment