Thursday 24 April 2014

تجھے کیا ناصحا احباب خود سمجھائے جاتے ہیں

تجھے کیا ناصحا احباب خود سمجھائے جاتے ہیں
اِدھر تُو کھائے جاتا ہے، اُدھر وہ کھائے جاتے ہیں
چمن والوں سے جا کر نسیمِ صبح کہہ دینا
اسِیرانِ قفس کے آج پَر کٹوائے جاتے ہیں
کہیں بیڑی اٹکتی ہے کہیں زنجیر الجھتی ہے
بڑی مشکل سے دیوانے تیرے دفنائے جاتے ہیں
اُنہیں غیروں کے گھر دیکھا ہے اور انکار ہے ان کو
میں باتیں پی رہا ہوں اور وہ قسمیں کھائے جاتے ہیں
خدا محفوظ رکھے نالہ ہائے شامِ فرقت سے
زمیں بھی کانپتی ہے، آسماں تھرائے جاتے ہیں
کوئی دَم اشک تھمتے ہی نہیں ایسا بھی کیا رونا
قمرؔ دو چار دن کی بات ہے وہ آئے جاتے ہیں

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment