کیسی رِندوں کی طبیعت، کیسا پیمانوں کا رُخ
گردشِ دوراں بدل دیتی ہے مے خانوں کا رُخ
ہم نے گلزاروں میں بھی دیکھی ہے خاک اڑتی ہوئی
ایک ہی جانب نہیں رہتا بیابانوں کا رُخ
عاشقوں کے جھمگٹے ہیں تیری بزمِ ناز تک
سُوکھتی جاتی ہیں آنکھیں ڈُوبتے جاتے ہیں دل
تیری محفل میں بدل جاتا ہے طُوفانوں کا رُخ
زندگی بڑھتی ہے آگے ان کے تیور دیکھ کر
وقت بھی پہچانتا ہے تیرے دیوانوں کا رُخ
کیسی کیسی محفلوں میں زلزلے آنے لگے
جوشِ وحشت نے کیا ہے آج ایوانوں کا رُخ
آج بھی وہ غرقِ مستی، آج بھی ہم تشنہ کام
مے کدہ بدلا، مگر بدلا نہ پیمانوں کا رُخ
کیا ہوا ہم کو اگر دوچار موجیں چُھو گئیں
ہم نے بدلا ہے نہ جانے کتنے طوفانوں کا رُخ
قابلؔ ان کی بے نیازی کا کرشمہ دیکھئے
اپنی جانب ہو گیا ہے سارے افسانوں کا رُخ
قابلؔ اجمیری
No comments:
Post a Comment