بجھنے لگ جائیں تو پھر شمعیں جلا دی جائیں
مِری آنکھیں، مِرے دشمن کو لگا دی جائیں
بے ہنر لوگ کہاں، حرف کی سچائی کہاں
اب کتابیں کسی دریا میں بہا دی جائیں
ان کی پہچان کا دکھ جاں سے گزر جاتا ہے
یہ شبیہیں سرِ آئینہ گنوا دی جائیں
اب بچھڑنے کا سلیقہ ہے نہ ملنے کا ہُنر
عشق میں تہمتیں آئیں تو بھلا دی جائیں
یا تو خورشید چمکتا رہے پیشانی میں
یا لکیریں مِرے ماتھے کی مٹا دی جائیں
کتنی بھولی ہوئی باتیں ہمیں آج اس کی سلیم
یاد آئیں ہے تو اب اس کو بتا دی جائیں
مِری آنکھیں، مِرے دشمن کو لگا دی جائیں
بے ہنر لوگ کہاں، حرف کی سچائی کہاں
اب کتابیں کسی دریا میں بہا دی جائیں
ان کی پہچان کا دکھ جاں سے گزر جاتا ہے
یہ شبیہیں سرِ آئینہ گنوا دی جائیں
اب بچھڑنے کا سلیقہ ہے نہ ملنے کا ہُنر
عشق میں تہمتیں آئیں تو بھلا دی جائیں
یا تو خورشید چمکتا رہے پیشانی میں
یا لکیریں مِرے ماتھے کی مٹا دی جائیں
کتنی بھولی ہوئی باتیں ہمیں آج اس کی سلیم
یاد آئیں ہے تو اب اس کو بتا دی جائیں
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment