Friday 11 April 2014

پانیوں پانیوں جب چاند کا ہالہ اترا

پانیوں پانیوں جب چاند کا ہالہ اُترا
نیند کی جھیل پہ اِک خواب پرانا اترا
آزمائش میں کہاں عشق بھی پورا اترا
حسن کے آگے تو تقدیر کا لِکھا اترا
دھوپ ڈھلنے لگی، دیوار سے سایہ اترا
سطح ہموار ہوئی، پیار کا دریا اترا
یاد سے نام مٹا، ذہن سے چہرہ اترا
چند لمحوں میں نظر سے تری کیا کیا اترا
آج کی شب میں پریشاں ہوں تو یوں لگتا ہے
آج مہتاب کا چہرہ بھی ہے اترا اترا
میری وحشت رَمِ آہو سے کہیں بڑھ کر تھی
جب مری ذات میں تنہائی کا صحرا اترا
اِک شبِ غم کے اندھیرے پہ نہیں ہے موقوف
تُو نے جو زخم لگایا ہے وہ گہرا اترا

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment