Friday 11 April 2014

دل خوں ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے

دل خوں ہو تو کیوں کر نہ لہو آنکھ سے برسے
آخر کو تعلق ہے اسے دیدۂ تر سے
کچھ دیر تو اس قلبِ شکستہ میں بھی ٹھہرو
یوں تو نہ گزر جاؤ اِس اجڑے ہوئے گھر سے
ہر موج سے طوفانِ حوادث کی حُدی خواں
مشکل ہے نکلنا مری کشتی کا بھنور سے
یہ حُسن یہ شوخی یہ تبسّم یہ جوانی
اللہ بچائے تمہیں بد بِیں کی نظر سے
خورشید تو کیا، غیرتِ خورشید ہوا ہے
وہ ذرّہ جو اُبھرا ہے تری راہگُزر سے
نکلی نہ جو دیدار کی حسرت تو یہ ہو گا
سر پھوڑ کے مر جائیں گے دیوار سے، دَر سے
سو رنج ہیں، سو شکوہ شکایات ہیں، لیکن
مجبور ہیں، کچھ کہتے نہیں آپ کے ڈر سے
صیّاد! خدا خیر کرے اہل چمن کی
دیکھے ہیں فضاؤں میں کچھ اڑتے ہوئے پَر سے
وہ روٹھ گئے ہم سے، جدا ان سے ہوئے ہم
اب چھیڑ اٹھے گی نہ اِدھر سے نہ اُدھر سے
لوگوں کا حسد شعر کی شہرت سے بڑھے گا
خوف آتا ہے خود مجھ کو نصیرؔ اپنے ہُنر سے

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment