غازی بنے رہے سبھی عالی بیان لوگ
پہنچے سرِ صلیب فقط بے نشان لوگ
اخلاقیاتِ عشق میں شامل ہے یہ نیاز
ہم ورنہ عادتاً ہیں بڑے خود گمان لوگ
چھوٹی سی اک شراب کی دُکان کی طرف
دل اک دیارِ رونق وَرم ہے، لُٹا ہوا
گزرے ہیں اس طرف سے کئی مہربان لوگ
اے دِل! انہی کے طرزِ تکلم سے ہوشیار
اس شہر میں ملیں گے کئی بے زبان لوگ
آیا تھا کوئی شام سے، واپس نہیں گیا
مُڑ مُڑ کے دیکھتے ہیں ہمارا مکان لوگ
ان سے جنہیں کنوئیں کے سوا کچھ خبر نہیں
مغرب کا طنز سنتے ہیں ہم نوجوان لوگ
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment