Friday 11 April 2014

درد ہوتا رہا سوا اور میں

درد ہوتا رہا سوا، اور میں
تھا اکیلا مرا خُدا، اور میں
ترےآنے پہ کھِل اُٹھیں گے سبھی
پھول، خوشبو، چمن، صبا اور میں
ایک مُدٌت سے منتظر ہیں ترے
رات، آنکھیں، یہ دل، دیا اور میں
کہہ رہا تھا  اُجڑ نہ جائے جہاں
میں نے یہ بھی نہیں کہا، اور میں
تُو نے دیکھا نہیں پلٹ کے کبھی
آئینہ ٹوٹتا رہا اور میں 
وہ ہواؤں پہ لکھ رہا تھا، وہ ہے
ریت پر میں نے لکھ دیا، اور میں
پہلے تھا پیار زندگی کی طرح
تجھ کو لگتا ہے اب سزا، اور میں
وہ زمانے کی بات کرتا رہا
کر دیا میں نے بھی گِلہ، اور میں
ہاتھ پر اُس کے لکھ دیا ہے بتولؔ
کتنی اچھی ہے یہ ادا، اور میں

فاخرہ بتول

No comments:

Post a Comment