Friday 11 April 2014

اب کے برسات کی رت اور بھی بھڑکیلی ہے

اب کے برسات کی رُت اور بھی بھڑکیلی ہے 
جسم سے آگ نکلتی ہے قبا گیلی ہے 
سوچتا ہوں کہ اب انجام سفر کیا ہو گا 
لوگ بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے 
شدّتِ کرب میں ہنسنا تو کرب ہے میرا 
ہاتھ ہی سخت ہے زنجیر کہاں ڈھیلی ہے 
گرد آنکھوں میں سہی داغ تو چہرے پہ نہیں 
لفظ دھندلے ہیں مگر فکر تو چمکیلی ہے 
گھول دیتا ہے سماعت میں وہ میٹھا لہجہ 
کس کو معلوم کہ یہ قَند بھی زہریلی ہے 
پہلے رگ رگ سے میری خون نچوڑا اس نے 
اب یہ کہتا ہے کے رنگت ہی مری پیلی ہے 
مجھ کو بے رنگ ہی نہ کر دے کہیں رنگ اتنے 
سبز موسم ہے، ہوا سرخ، فضا نیلی ہے 
مری پرواز کسی کو نہیں بھاتی تو نہ بھائے 
کیا کروں ذہن مظفرؔ میرا جبرائیلی ہے 

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment