Monday 17 March 2014

نہ بھولے گا ترا راتوں کو شرماتے ہوئے آنا

نہ بُھولے گا تِرا راتوں کو شرماتے ہوئے آنا
رسِیلی انکھڑیوں سے نیند برساتے ہوئے آنا
رُخِ روشن کے جلووں سے سحر کا نور بن بن کر
اندھیری رات کے پردوں کو سرکاتے ہوئے آنا
روپہلی چاندنی میں اپنی مستانہ خرامی سے
بہار و خواب کے سائے سے برساتے ہوئے آنا
محبت کے فرشتے کی طرح خاموش راتوں میں
فضا کو نکہتِ گیسُو سے مہکاتے ہوئے آنا
تِرے پازیب کی جھنکار کا آہستہ آہستہ
وہ دھیمی دھیمی لے میں گیت برساتے ہوئے آنا
تِرے ابریشمی ملبوس کا صرصر کے جھونکوں سے
سحابِ رنگ و بُو کی طرح لہراتے ہوئے آنا
بدن اپنا چُرا لینا، کبھی نظریں جُھکا لینا
ہم آغوشی کے اندیشے سے گھبراتے ہوئے آنا
شبِ تاریک کے خاموش نظاروں کی بستی کو
شراب و نُور کی موجوں سے نہلاتے ہوئے آنا
نگاہوں میں حیا، آنکھوں میں مستی، چال میں لغزش
مصوّر کے قلم کے خواب برساتے ہوئے آنا
ہواؤں کا مہک اُٹھنا، فضاؤں کا بہک اُٹھنا
وہ مہکاتے ہوئے آنا، وہ بہکاتے ہوئے آنا
محل کے پاسباں خوابیدہ، شمعیں خواب دردیدہ
اور اے ملکہ تِرے سائے کا شرماتے ہوئے آنا

اختر شیرانی

No comments:

Post a Comment