Saturday 29 March 2014

اسیرِ دشت بلا کا نہ ماجرا کہنا

اسیرِ دشتِ بلا کا نہ ماجرا کہنا
تمام پوچھنے والوں‌ کو بس دعا کہنا
یہ کہنا رات گزرتی ہے اب بھی آنکھوں ‌میں
تمہاری یاد کا قائم ہے سلسلہ کہنا
یہ کہنا مسندِ شاخِ نمو پہ تھا جو کبھی
وہ پھول صورتِ خوشبو بکھر گیا کہنا
یہ کہنا ہم نے ہی طوفاں‌ میں‌ ڈال دی کشتی
قصور اپنا ہے دریا کو کیا برا کہنا
یہ کہنا ہو گئے ہم اتنے مصلحت اندیش
چلے جو لُو تو اسے بھی خُنک ہوا کہنا
یہ کہنا ہار نہ مانی کبھی اندھیروں سے
بُجھے چراغ تو دل کو جلا لیا کہنا
یہ کہنا تم سے بچھڑ کر بکھر گیا تشنہٓ
کہ جیسے ہاتھ سے گر جائے آئینہ کہنا

عالم تاب تشنہ

No comments:

Post a Comment