زمین جکڑے ہوئے ہے آسماں چھاتی پہ رکھا ہے
تمنا نے قدم کیوں مجھ خراباتی پہ رکھا ہے
ذرا سی خاک اڑا کر پوچھ سکتے تھے ہوا سے بھی
مگر ہم نے جہت کا فیصلہ ساتھی پہ رکھا ہے
رہیں گی پاؤں کے نیچے سعادت مند اولادیں
تمہاری خود پسندی کا نیا انداز بھی دیکھا
نظر آئینے پر ہے، رخ ملاقاتی پہ رکھا ہے
سبھی کہتے ہیں پروانہ انہیں بدنام کر دے گا
چراغوں نے بھروسا کس خرافاتی پہ رکھا ہے
مظفرؔ تشنہ لب رہنا سِکھاتا ہے جو دریا میں
اسی نے سایہ صحرا کے مناجاتی پہ رکھا ہے
مظفر حنفی
No comments:
Post a Comment