Monday 24 March 2014

زمین جکڑے ہوئے ہے آسماں چھاتی پہ رکھا ہے

زمین جکڑے ہوئے ہے آسماں چھاتی پہ رکھا ہے
تمنا نے قدم کیوں مجھ خراباتی پہ رکھا ہے
ذرا سی خاک اڑا کر پوچھ سکتے تھے ہوا سے بھی
مگر ہم نے جہت کا فیصلہ ساتھی پہ رکھا ہے
رہیں گی پاؤں کے نیچے سعادت مند اولادیں
کہ ماں شوکیس میں ہے باپ برساتی پہ رکھا ہے
تمہاری خود پسندی کا نیا انداز بھی دیکھا
نظر آئینے پر ہے، رخ ملاقاتی پہ رکھا ہے
سبھی کہتے ہیں پروانہ انہیں بدنام کر دے گا
چراغوں نے بھروسا کس خرافاتی پہ رکھا ہے
مظفرؔ تشنہ لب رہنا سِکھاتا ہے جو دریا میں
اسی نے سایہ صحرا کے مناجاتی پہ رکھا ہے

مظفر حنفی

No comments:

Post a Comment