خطاوارِ مروّت ہو، نہ مرہونِ کرم ہو جا
مسرّت سر جھکائے گی، پرستارِ الم ہو جا
انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی
انہی الجھی ہوئی راہوں میں میرا ہمقدم ہو جا
کسی زردار سے جنسِ تبسّم مانگنے والے
کسی دن اِن اندھیروں میں چراغاں ہو ہی جائے گا
جلا کر داغِ دل کوئی ضیائے شامِ غم ہو جا
تجھے سُلجھائے گا اب انقلابِ وقت کا شانہ
تقاضائے جنُوں ہے گیسُوئے دوراں کا خم ہو جا
تجسس مرکزِ تقدیر کا قائل نہیں ہوتا
شعورِ بندگی! بے گانۂ دَیر و حرم ہو جا
یہ منزل اور گردِ کارواں ساغرؔ، کہاں اپنے
سمٹ کر رہگزارِ وقت پر نقشِ قدم ہو جا
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment