Sunday 23 March 2014

پرسش غم کا شکریہ کیا تجھے آگہی نہیں

پُرسشِ غم کا شکریہ، کیا تجھے آگہی نہیں
تیرے بغیر زندگی، درد ہے، زندگی نہیں
دور تھا اِک گزر گیا، نشہ تھا اِک اُتر گیا
اب وہ مقام ہے جہاں شکوہٴ بے رُخی نہیں
تیرے سوا کروں پسند کیا تِری کائنات میں
دونوں جہاں کی نعمتیں، قیمتِ بندگی نہیں
لاکھ زمانہ ظلم ڈھائے، وقت نہ وہ خدا دکھائے
جب مجھے ہو یقین کہ تُو، حاصلِ زندگی نہیں
دل کی شگفتگی کے ساتھ راحتِ مے کدہ گئی
فرصت مہ کشی تو ہے، حسرت مہ کشی گئی
زخم پہ زخم کھا کے جی، اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ ناں کر، لبوں کو سی، عشق ہے دل لگی نہیں
دیکھ کے خشک و زرد پُھول، دل ہے کچھ اس طرح ملُول
جیسے تیری خزاں کے بعد، دورِ بہار ہی نہیں

احسان دانش

2 comments: