Monday, 17 March 2014

آج قسمت سے نظر آئی ہے برسات کی رات

آج قسمت سے نظر آئی ہے برسات کی رات
کیا بگڑ جائے گا رہ جاؤ یہیں رات کی رات
ان کی پابوسی کو جائے تو صبا کہہ دینا
آج تک یاد ہے وہ آپ کے گجرات کی رات
جس میں سلمٰی کے تصور کے ہیں تارے روشن
میری آنکھوں میں ہے وہ عالمِ جذبات کی رات
ہائے وہ مست گھٹا ہائے وہ سلمٰی کی ادا
آہ وہ رُودِ چناب، آہ وہ گجرات کی رات
میرے سینے پہ ادھر زُلف معطّر کا ہجوم
آہ وہ زُلف کہ آوارہ خرابات کی رات
سطحِ دریا پہ ادھر نشے میں لہرائی ہوئی
رنگ لائی ہوئی، چھائی ہوئی برسات کی رات
اف وہ سوئی ہوئی کھوئی ہوئی فطرت کی بہار
اف وہ مہکی ہوئی بہکی ہوئی برسات کی رات
پھر وہ ارمانِ ہم آغوشی کا جذبِ گستاخ
آہ وہ رات وہ سلمٰی سے ملاقات کی رات
کیوں نہ ان دونوں پہ مٹنے کی ہو حسرت اخترؔ
اف وہ اس رات کی بات، آہ وہ اس بات کی رات

اختر شیرانی

No comments:

Post a Comment