Monday 10 March 2014

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے

یاد کی راہگزر جس پہ اسی صورت سے
مدتیں بیت گئی ہیں تمہیں چلتے چلتے
ختم ہو جائے جو دو چار قدم اور چلو
موڑ پڑتا ہے جہاں دشتِ فراموشی کا
جس سے آگے نہ کوئی میں ہوں نہ کوئی تم ہو
سانس تھامے ہیں نگاہیں کہ نہ جانے کس دم
تم پلٹ آؤ، گزر جاؤ، یا مڑ کر دیکھو

گرچہ واقف ہیں نگاہیں کہ یہ سب دھوکا ہے
گر کہیں‌ تم سے ہم آغوش ہوئی پھر سے نظر
پھوٹ نکلے گی وہاں اور کوئی راہگزر
پھر اسی طرح جہاں ہوگا مقابل پیہم
سایۂ زلف کا اور جنبشِ بازو کا سفر

دوسری بات بھی جھوٹی ہے کہ دل جانتا ہے
یاں کوئی موڑ کوئی دشت کوئی گھات نہیں
جس کے پردے میں‌مرا ماہِ رواں ڈوب سکے
تم سے چلتی رہے یہ راہ، یونہی اچھا ہے
تم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا تو کوئی بات نہیں

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment