Sunday 16 March 2014

کہ اس مکاں میں کوئی راستہ تو دود کا ہے

جو دل ملا تھا ہمیں شکر ہے زباں بھی ملی
کہ اس مکاں میں کوئی راستہ تو دُود کا ہے
وہ ساحلوں پہ کھڑا لہریں گنتا رہتا ہے
حصول کچھ بھی نہیں، کاروبار سُود کا ہے
پڑھے گا کون یہاں اشتہار عبرت کا
کہ تجھ کو نام کا لپکا مجھے نمُود کا ہے
مجھے تمہاری رفاقت پہ اعتراض نہیں
مگر تمہارا زمانہ تو کھیل کُود کا ہے
مِری رسائی میں یہ مشکلات ہیں کہ مِری
بساط، خاک کی ہے اور سفر، عمُود کا ہے
خبر نہیں، وہ ہمیں رامؔ کیوں نہیں ملتا
وگرنہ روح سے کیا فاصلہ وجُود کا ہے 

رام ریاض

ریاض احمد

No comments:

Post a Comment