Friday, 14 March 2014

بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے

بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے
نئے چراغ جلا، رات ہو گئی پیارے
تِری نگاہِ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے
نہ تیری یاد، نہ دنیا کا غم، نہ اپنا خیال
عجیب صُورتِ حالات ہو گئی پیارے
اُداس اُداس ہیں شمعیں بُجھے بُجھے ساغر
یہ کیسی شامِ خرابات ہو گئی پیارے
کبھی کبھی تیری یادوں کی سانولی رُت میں
بہے جو اشک، تو برسات ہو گئی پیارے
وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں
ہم اہلِ دل کو اگر مات ہو گئی پیارے
تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
الگ تھلگ سے ہو، کیا بات ہو گئی پیارے

حبیب جالب​

No comments:

Post a Comment