سنگ جب آئینہ دکھاتا ہے
تیشہ کیا کیا نظر چراتا ہے
سلسلہ پیاس کا بتاتا ہے
پیاس دریا کہاں بجھاتا ہے
ریگزاروں میں جیسے تپتی دھوپ
یوں بھی اس کا خیال آتا ہے
سن رہا ہوں خرامِ عمر کی چاپ
عکس آواز بنتا جاتا ہے
وہ بھی کیا شخص ہے کہ پاس آ کر
فاصلہ دور تک بچھاتا ہے
گھر تو ایسا کہاں تھا لیکن
در بدر ہیں تو یاد آتا ہے
تیشہ کیا کیا نظر چراتا ہے
سلسلہ پیاس کا بتاتا ہے
پیاس دریا کہاں بجھاتا ہے
ریگزاروں میں جیسے تپتی دھوپ
یوں بھی اس کا خیال آتا ہے
سن رہا ہوں خرامِ عمر کی چاپ
عکس آواز بنتا جاتا ہے
وہ بھی کیا شخص ہے کہ پاس آ کر
فاصلہ دور تک بچھاتا ہے
گھر تو ایسا کہاں تھا لیکن
در بدر ہیں تو یاد آتا ہے
امید فاضلی
No comments:
Post a Comment