Friday, 14 March 2014

مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے

مقتلِ جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
ہم تو خوشبو کی طرح نکلے، جدھر سے نکلے
مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
ہم تو خوشبو کی طرح نکلے جدھر سے نکلے
گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے
شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے
جانے وہ کون سی منزل تھی محبت کی جہاں
میرے آنسو بھی ترے دیدۂ تر سے نکلے
دربدری کا ہمیں طعنہ نہ دے اے چشم غزال
دیکھ وہ خواب کہ جس کے لیے گھر سے نکلے
میرا رہزن ہوا کیا کیا نہ پشیمان کہ جب
اس کے نامے میرے اسباب سفر سے نکلے
بر سر دوش رہے یا سر نیزہ یارب
حق پرستی کا نہ سودا کبھی سر سے نکلے
انقلاب آئے، مگر آئے نہ ایسا کہ امیدؔ
سایہ خورشید سے اور دھوپ شجر سے نکلے

امید فاضلی

No comments:

Post a Comment