Friday 14 March 2014

مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں

مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں
ہم محوِ تماشائے سرِ راہ گزر ہیں
حسرت سی برستی ہے در و بام پہ ہر سُو
روتی ہوئی گلیاں ہیں سِسکتے ہوئے گھر ہیں
آئے تھے یہاں جن کے تصوّر کے سہارے
وہ چاند، وہ سورج، وہ شب و روز کدھر ہیں
سوئے ہو گھنی زُلف کے سائے میں ابھی تک
اے راہ رواں! کیا یہی اندازِ سفر ہیں
وہ لوگ قدم جن کے لئے، کاہکشاں نے
وہ لوگ بھی اے ہم نفسو! ہم سے بشر ہیں
بِک جائیں جو ہر شخص کے ہاتھوں سرِ بازار
ہم یوسفِؑ کنعاں ہیں، نہ ہم لعل و گُہر ہیں
ہم لوگ مِلیں گے تو محبت سے مِلیں گے
ہم نزہتِ مہتاب ہیں، ہم نُورِ سحر ہیں

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment