ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیں
دھوپ تھے سائباں کے تھے ہی نہیں
راستے کارواں کے ساتھ رہے
مرحلے کارواں کے تھے ہی نہیں
اب ہمارا مکان، کس کا ہے
ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا
بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں
اس گلی میں یہ سُن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
ہو تِری خاکِ آستاں پہ سلام
ہم تِرے آستاں کے تھے ہی نہیں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment