چھوڑ کر تیری گلی، چین کہاں لیتا ہوں
جسم میرا ہے یہاں، سانس وہاں لیتا ہوں
لوگ حیرت سے وہاں دیکھنے آتے ہیں مجھے
فخر کے ساتھ تِرا نام جہاں لیتا ہوں
روشنی بھی جو دیا کرتے تھے شامِ ہجراں
اُس کی وعدہ شکنی سے وہ ہوئی ہے عبرت
نہ زباں دیتا ہوں میں اب نہ زباں لیتا ہوں
کیا وفا اُس نے کِسی ایک سے بھی کی ہے قتیلؔ
میں ذرا جا کے رقیبوں کا بیاں لیتا ہوں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment