Friday 7 March 2014

ہم کا دکھائی دیت ہے ایسی روپ کی اگیا ساجن ماں

ہم کا دِکھائی دیت ہے ایسی رُوپ کی اگیا ساجن ماں
جھونس رہا ہے تن من ہمرا نِیر بھر آئے اَکھین ماں
دُور بھئے ہیں جب سے ساجن آگ لگی ہے تن من ماں
پُورب پچھم اُتر دَکھن ڈھونڈ پھری میں بن بن ماں
یاد ستاوے پردیسی کی دل لوٹت انگاروں پر
ساتھ پیا ہمرا جب ناہیں اگیا بارو گُلشن ماں
درشن کی پیاسی ہے نجریا ترسِن اکھیاں دیکھن کا
ہم سے رُوٹھے منہ کو چُھپائے بیٹھے ہو کیوں چِلمن ماں
اے تہاری آس پہ ساجن سگرے بندھن توڑے ہیں
اپنا کر کے راکھیو موہے آن پڑی ہوں چرنن ماں
چَھٹ جائیں یہ غم کے اندھیرے گھٹ جائیں یہ درد گھنے
چاند سا مکھڑا لے کر تم جو آ نکلو مورے آنگن ماں
جیون آگ بگولا ہِردے، آس نہ اپنے پاس کوئی
تیرے پریت کی مایا ہے کچھ، اور نہیں مجھ نِردھن ماں
ڈال گلے میں پِیت کی مالا، خود ہے نصیرؔ اب متوالا
چِتون میں ‌جادو کا جتن ہے رس کے بھرے تورے نینن ماں

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment