Friday 7 March 2014

تو اگر رکھے گا ساقی ہم سے پیمانہ الگ

تُو اگر رکھے گا ساقی ہم سے پیمانہ الگ
ہم بنا لیں گے کہیں چھوٹا سا مے خانہ الگ
مے کشی کے ساتھ لُطفِ رقصِ پیمانہ الگ
اور اس پر اِلتفاتِ پیرِ مے خانہ الگ
خالِ رُخ، دل کی گرفتاری کا اِک سامان ہے
بے خبر ہوتا نہیں ہے دام سے دانہ الگ
خودنمائی اسکی فطرت، بے نیازی اسکی خُو
رنگِ شاہانہ جُدا، طرزِ فقیرانہ الگ
گُل کِھلائے فصل، گُل آتے ہی دیوانوں نے یُوں
اب نظر آتا نہیں گُلشن سے ویرانہ الگ
آنسوؤں سے لکھ رہے ہیں واقعاتِ زندگی
ہم مرتب کر رہے ہیں اپنا افسانہ الگ
تیرے صدقے اب نہیں ساقی مجھے کوئی گِلہ
مجھ کو مِل جاتی ہے مے پینے کو روزانہ الگ
مے کدے میں ہم ہیں اپنے ہر نفس میں موجِ مے
اب نہ شیشہ ہے جُدا ہم سے، نہ پیمانہ الگ
زاہدوں کو بادہ نوشوں سے ہو کیونکر اِلتفات
پارسائی اور شے، اندازِ رِندانہ الگ
پی رہا ہوں، جی رہا ہوں، شاد ہوں، مسرور ہوں
دل لگی مے سے الگ، ساقی سے یارانہ الگ
مے کدے میں اب بھی اتنی ساکھ ہے اپنی نصیرؔ
اِک ہمارے نام کا رہتا ہے پیمانہ الگ

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment