نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے
بساطِ بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش، سبو چپ، اداس پیمانے
یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا
بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا
مری نگاہ کو کیا ہو گیا خدا جانے
ہے کون بر لبِ ساحل، کہ پیشوائی کو
قدم اُٹھائے بہ اندازِ موج، دریا، نے
تمام شہر میں اک درد آشنا نہ ملا
بسائے اِس لئے اہلِ جنوں نے ویرانے
نہ اب وہ جلوۂ یوسفؑ، نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حُسن کے تیور، نہ اب وہ دیوانے
خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی
نہ سلسلے نہ وہ قصے نہ اب وہ افسانے
تمام بند جُنوں توڑ بھی گیا، لیکن
انا کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں فرزانے
یہ انقلاب کہاں آسماں نے دیکھا تھا
الجھ رہے ہیں غمِ زندگی سے دیوانے
ہر ایک اپنے ہی سود و زیاں کی فکر میں ہے
کوئی تو ہو، جو مِرے دل کا درد پہچانے
تِرا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی
کہ ہو گئے ہیں پھر آباد آج مے خانے
جبیں کو در پہ ترے رکھ دیا یہی کہہ کر
یہ جانے اور تِرا سنگِ آستاں جانے
اُٹھیں گے پی کے تِری مے نواز آنکھوں سے
یہ طے کئے ہوئے بیٹھے ہیں آج دیوانے
نصیرؔ اشک تو پلکوں پہ سب نے دیکھ لیے
گزر رہی ہے جو دل پر، وہ کوئی کیا جانے
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment