Friday 7 March 2014

اپنوں کے ستم ان کی وفا یاد کریں گے

اپنوں کے ستم ان کی وفا یاد کریں گے
ہم جرمِ محبت کی سزا یاد کریں گے
تُو آ گئی، آنا تھا جنہیں، وہ نہیں آئے
ہم بھی تجھے کیا کیا نہ صبا یاد کریں گے
تُم ہم سے بچھڑتے ہو مگر بھول نہ جانا
یہ سُن کے رکے اور کہا یاد کریں گے
اب حرفِ تسلی کا تکلف نہ کریں وہ
جو دِل سے بھلا بیٹھے وہ کیا یاد کریں گے
ہم بُھول کے اب نام بھی نہ لیں گے وفا کا
وہ چوٹ لگی ہے کہ سدا یاد کریں گے
ہم چشمِ تصور میں سجا لیں گے وہ آنکھیں
یوں پینے پِلانے کا مزہ یاد کریں گے
یاروں پہ نصیرؔ آپ دِل و جاں سے فِدا تھے
وہ پِھر گئے سب، آپ بھی کیا یاد کریں گے

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment