Friday, 7 March 2014

یہاں سے ہاتھ ملتے جا رہے ہیں

یہاں سے ہاتھ ملتے جا رہے ہیں
 مگر دنیا بدلتے جا رہے ہیں
 یہ لب ہیں اب بھی مرہونِ تبسّم
 پھر آنسو کیوں اُبلتے جا رہے ہیں
 جو نقشے ہم نے کھینچے تھے جنوں میں
 وہی نقشے بدلتے جا رہے ہیں
 وہ آنسو اب بھی پینا چاہتا ہوں
 جو مژگاں پر مچلتے جا رہے ہیں
 قیامت ہے قیامت سی قیامت
 تِرے میکش سنبھلتے جا رہے ہیں
 حریفِ آدمیت ہے زمانہ
 جو ہیں ناکام جلتے جا رہے ہیں

اسرار الحق مجاز
(مجاز لکھنوی)

No comments:

Post a Comment