Friday, 7 March 2014

تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے

تسکینِ دلِ محزوں نہ ہوئی، وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
اس سعئ کرم کو کیا کہیے، بہلا بھی گئے، تڑپا بھی گئے
ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے، کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی، واں آنکھ جُھکی، شرما بھی گئے
آشفتگئ وحشت کی قسم، حیرت کی قسم، حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں، ہم رازِ تبسّم پا بھی گئے
رُودادِ غمِ الفت اُن سے، ہم کیا کہتے، کیوں کر کہتے
اِک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے
اربابِ جنوں پر فرقت میں، اب کیا کہیے، کیا کیا گزری
آئے تھے سوادِ الفت میں، کچھ کھو بھی گئے کچھ پا بھی گئے
یہ رنگِ بہارِ عالم ہے، کیوں فکر ہے تجھ کو اے ساقی
محفل تو تِری سُونی نہ ہوئی، کچھ اُٹھ بھی گئے، کچھ آ بھی گئے
اس محفلِ کیف و مستی میں، اِس انجمنِ عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے، ہم پی بھی گئے، چھلکا بھی گئے

اسرار الحق مجاز
(مجاز لکھنوی)

No comments:

Post a Comment