Friday 7 March 2014

محبت میں ہماری اشک افشانی نہیں جاتی

محبت میں ہماری اشک افشانی نہیں جاتی
بھری برسات ہے دریا کی طغیانی نہیں جاتی
مصیبت ٹل نہیں سکتی، پریشانی نہیں جاتی
کسی کی بھی نصیحت عشق میں مانی نہیں جاتی
جو کل تک دَیر تھا، ہم نے اسے کعبہ بنا ڈالا
مگر اس پر بھی اپنی کُفر سامانی نہیں جاتی
مریضِ ہجر کو اب آپ پہچانیں تو پہچانیں
فرشتے سے اجل کے شکل پہچانی نہیں جاتی
تمہارا آستاں ہے اب ہماری آخری منزل
کسی بھی در کی ہم سے خاک اب چھانی نہیں جاتی
قیامت ہے تمہارا بن سنور کے سامنے آنا
مِرا کیا ذکر، آئینے کی حیرانی نہیں جاتی
وہی خودداریاں ہیں، تمکنت ہے، بے نیازی ہے
فقیری میں بھی اپنی شانِ سلطانی نہیں جاتی
یہ ممکن ہے تِرے کوچے میں رہ کر جان سے جائیں
مگر تا مرگ تیرے در کی دربانی نہیں جاتی
تری رنجش ہو، تیری بے رُخی ہو، بدگمانی ہو
بڑی مشکل سے جاتی ہے بآسانی نہیں جاتی
تماری ناشناسائی کا شکوہ کیا کریں تم سے
ہمیں سے جب ہماری شکل پہچانی نہیں جاتی
جنونِ عشق سے جو بستیاں آباد ہوتی ہیں
بہاریں لاکھ آئیں اُن کی ویرانی نہیں جاتی
محبت تو نصیرؔ ایسا تلاطم خیز دریا ہے
سفینے غرق ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment