Tuesday 4 March 2014

کام کی بات میں نے کی ہی نہیں

کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
یہ مِرا طور زندگی ہی نہیں
اے امید، اے امیدِ نو میداں
مجھ سے میت تِری اٹھی ہی نہہیں
میں جو تھا اس گلی کا مست خرام
اس گلی میں مِری چلی ہی نہیں
یہ سُنا ہے کہ میرے کوچ کے بعد
اس کی خوشبو کہیں بسی ہی نہیں
تھی جو جو اک فاختہ اداس اداس
صبح وہ شاخ سے اڑی ہی نہیں
مجھ میں اب میرا جی نہیں لگتا
اور ستم یہ کہ میرا جی ہی نہیں 
وہ جو رہتی تھی دل محلے میں
پھر وہ لڑکی مجھے ملی ہی نہیں
جائیے اور خاک اڑائیے آپ
اب وہ گھر کیا کہ وہ گلی ہی نہیں
ہائے وہ شوق جو نہیں تھا کبھی
ہائے وہ زندگی جو تھی ہی نہیں

جون ایلیا​

No comments:

Post a Comment