گزر آیا میں چل کے خود پر سے
اک بَلا تو ٹلی مِرے سر سے
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
مجھ سے اب لوگ کم ہی مِلتے ہیں
میں خمِ کوچۂ جدائی تھا
سب گزرتے گئے برابر سے
حجرۂ صد بلا ہے باطن ذات
خود کو تو کھینچیئو نہ باہر سے
کیا سحر ہو گئی دلِ بے خواب
اک دھواں اٹھ رہا ہے بستر سے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment