کیوں نہ ہم عہدِ رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
شائد اِس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں
نہیں ایسا بھی کہ اِک عمر کی قربت کے نشے
ایک دو روز کی رنجِش سے ٹھکانے لگ جائیں
یہی ناصح جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں
ہم کہ ہیں لذّتِ آزار کے مارے ہوئے لوگ
چارہ گر آئیں تو زخموں کو چھپانے لگ جائیں
ربط کے سینکڑوں حِیلے ہیں محبت نہ سہی
ہم تِرے ساتھ کسی اور بہانے لگ جائیں
ساقیا! مسجد و مکتب تو نہیں، مے خانہ
دیکھنا پھر بھی غلط لوگ نہ آنے لگ جائیں
قُرب اچھا ہے مگر اتنی بھی شدت سے نہ مِل
یہ نہ ہو تجھ کو میرے روگ پرانے لگ جائیں
اب فرازؔ آؤ چلیں اپنے قبیلے کی طرف
شاعری ترک کریں بوجھ اٹھانے لگ جائیں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment