Friday 7 March 2014

اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم

اذنِ خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم
ہٹ کر چلے ہیں رہگزرِ کارواں سے ہم
کیونکر ہوا ہے فاش زمانے پہ ، کیا کہیں
وہ رازِ دل جو کہہ نہ سکے رازداں سے ہم
ہمدم یہی ہے رہ گزرِ یارِ خوش خرام
گزرے ہیں لاکھ بار اسی کہکشاں سے ہم
کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھئے
الجھے کبھی زمیں سے، کبھی آسماں سے ہم
 ٹھکرا دئیے ہیں عقل و خرد کے صنم کدے
 گھبرا چکے ہیں کشمکشِ امتحاں سے ہم
 بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجازؔ
 ڈرتے نہیں سیاستِ اہلِ جہاں سے ہم

اسرار الحق مجاز
(مجاز لکھنوی)

No comments:

Post a Comment